Seriale

ایک حقیقت - EK HAQEEQAT

 اعظمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


اعظمت رسول اللہ خدا کی نظر میں
  یہ ایک حقیقت ہے کہ جس محبوب کہ واسطے یہ دنیا بنائ گئ۔اس محبوب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان مبارک کا مقام و مرتہ کیا ہوگا اللہ تعالیٰ کے نزدیک. اور پھر اللہ نے آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کووہ مقام و مرتہ عطا فرمایا کے کسی دوسرے نبی و رسول کو عطا نہیں ہوا۔ اسی بات کو قرآن پاک یوں بیان کرتا ہے۔


    وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ 
  اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا ۔ 
  (Quran, Sura Alam Nashrah :94, Ayat No:4) 

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا

 وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَ
 اور بیشک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لئے پہلے سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہے 
 (Quran:Sura  Ad-Duhā:93, Ayat No:4)

پھر ارشاد ہوا 

  وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى 
 اور آپ کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔
 (Quran:Sura  Ad-Duhā:93, Ayat No:5) 

     إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثر 
 بیشک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے 
(Quran:Sura Al-Kawthar:108,Ayat No:1 ) 


اس آیت کریمہ کے روشنی میں یہ بات صاف واضح ہوجاتا ہے کہ جس کے مقام و مرتبہ کو خود اللہ تعالیٰ بلند فرما رہا ہو۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی اعظمت و رفعت کا کیا مقام مرتبہ ہوگا؟

ادب بارگاہ رسول اور گستاخی رسول خدا کی نظر میں۔
  
پھراللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے اس قدر محبت ہیں کہ اللہ رب ہوکر اپنے محبوب کا آدب و تعظیم کرنا اپنے بندے کوخود سیکھاتا ہیں کے جب میرے محبوب کی بارگاہ میں جاو تو کس طرح سے پیش آو۔ جب میرے محبوب سے کلام کرو تو کس طرح سےکلام کرو۔اور جب انہیں آواز تو تو کس طرح سے آواز دو۔ اور کوئ میرے محبوب کی شان مبارک میں گستاخی و بے آدبی کرنے والو خوب اچھی طرح سے سمجھ لو کے تمہارا سارا عمل برباد ہوجاے گا۔
اب جو قابل غور نکتہ ہےـ وہ یہ ہے کہ کبھی آپ نے ایسا دیکھا ہے کے بڑا چھوٹے کا آدب کرنا سیکھاتا ہو؟بادشاہ اپنے وزیر کا آدب و تعظیم کرنا سیکھاتا ہو؟ جواب ہوگا نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ رب ہوکر اپنے محبوب بندے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آدب و تعظیم کرنا سیکھا رہا ہیں۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام محمد رکھ کر یہ اعلان کر دیا کہ میرا محبوب سب سے جدا و اعلیٰ ہیں اور یہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اعلیٰ حمد اور محبت کی انتہا ہیں۔ قرآن پاک اسی شان مبارک کو یوں بیان کرتا ہیں۔ 

آدب بارگاہ رسول اللہ خدا کے نظر میں۔
  
 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ 
 اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہو جائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو
  (Quran,Sura  Al-Hujurāt:49,Ayat No:2)  

 إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيم 
 بیشک جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بارگاہ میں (ادب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اﷲ نے تقوٰی کے لئے چن کر خالص کر لیا ہے۔ ان ہی کے لئے بخشش ہے اور اجرِ عظیم ہے 
(Quran,Sura  Al-Hujurāt:49,Ayat No:3)


     إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ 
 بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر (آپ کے بلند مقام و مرتبہ اور آدابِ تعظیم کی) سمجھ نہیں رکھتے 
(Quran,Sura  Al-Hujurāt:49,Ayat No:4)

 وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِي
 اور اگر وہ لوگ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ خود ہی ان کی طرف باہر تشریف لے آتے تو یہ اُن کے لئے بہتر ہوتا، اور اﷲ بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے 
(Quran,Sura  Al-Hujurāt:49,Ayat No:5)  
  
رسول اللہ کے شان میں گستاخی کرنے والو کا انجام قرآن پاک کے روشنی میں۔ 

 وَمَن يَعْصِ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ 
 عَذَابٌ مُّهِينٌ
اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرے اور اس کی حدود سے تجاوز کرے اسے وہ دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اس کے لئے ذلّت انگیز عذاب ہے
(Quran,Sura An-Nisa:4,Ayat No:14)

 إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُواْ أَوْ يُصَلَّبُواْ أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلاَفٍ أَوْ يُنفَوْاْ مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِي 
 بیشک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریز رہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا پھانسی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیئے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے 
(Quran,Sura al-Mā’idah:5,Ayat No:33) 



 يَوْمَئِذٍ يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَعَصَوُاْ الرَّسُولَ لَوْ تُسَوَّى بِهِمُ الْأَرْضُ وَلاَ يَكْتُمُونَ اللّهَ حَدِيثًا
 اس دن وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی، آرزو کریں گے کہ کاش (انہیں مٹی میں دبا کر) ان پر زمین برابر کر دی جاتی، اور وہ اللہ سے کوئی بات نہ چھپا سکیں گے 
(Quran,Sura An-Nisa:4,Ayat No:42) 
     
 أَلَمْ يَعْلَمُواْ أَنَّهُ مَن يُحَادِدِ اللّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ذَلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيمُ
 کیا وہ نہیں جانتے کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرتا ہے تو اس کے لئے دوزخ کی آگ (مقرر) ہے جس میں وہ ہمیشہ رہنے والا ہے، یہ زبردست رسوائی ہے
   (Quran,Sura At-Tawbah:9,Ayat No:63)


 وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
 اور جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (اپنی بدعقیدگی، بدگمانی اور بدزبانی کے ذریعے) اذیت پہنچاتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے 
(Quran,Sura At-Tawbah:9,Ayat No:61) 

      إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا
 بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لئے ذِلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے 
(Quran,Sura al-Ahzāb:33,Ayat No:57)

 بِاللّهِ وَرَسُولِهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ 
 اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر کیا ہے، اور اللہ نافرمان قوم کو ہدایت نہیں فرماتا
(Quran,Sura At-Tawbah:9,Ayat No:80)
   
آپ نے دیکھا جو شخص اللہ تعالیٰ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شان مبارک میں گستاخی کرتا ہیں اسکے لئے اللہ نے کیا کیا عذاب تیار کر رکھی ہیں جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہیں۔ یہ تو تھا گستاخے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شان  میں گستاخی کر نے والو کے لئے ۔ اب دیکھتے ہے جو رسول اللہ سے محبت کر تے ہیں انکے لئے کیا حکم ہیں۔


رسول اللہ سے محبت اور آدب کر نے پر خدا کا انعام قرآن پاک کی روشنی میں۔

 تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ 
 یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں ہیں، اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری کرے اسے وہ بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے، اور یہ بڑی کامیابی ہے
(Quran,Sura An-Nisā:4,Ayat No:13)

   إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُون
 بیشک تمہارا (مددگار) دوست تو اﷲ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اﷲ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں
(Quran,Sura al-Mā’idah:5,Ayat No:55) 

 وَمِنَ الأَعْرَابِ مَن يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِندَ اللّهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ أَلاَ إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ سَيُدْخِلُهُمُ اللّهُ فِي رَحْمَتِهِ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ 
 اور بادیہ نشینوں میں (ہی) وہ شخص (بھی) ہے جو اﷲ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور جو کچھ (راہِ خدا میں) خرچ کرتاہے اسے اﷲ کے حضور تقرب اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (رحمت بھری) دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھتا ہے، سن لو! بیشک وہ ان کے لئے باعثِ قربِ الٰہی ہے، جلد ہی اﷲ انہیں اپنی رحمت میں داخل فرما دے گا۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے 
(Quran,Sura At-Tawbah:9,Ayat No:99)

الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
 یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہیں جو اُمّی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر مِن جانبِ اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور ان سے ان کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) جو ان پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے، ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نورِ (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں
(Quran,Sura Al-A‘rāf:7,Ayat No:157) 

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً
 اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لئے) اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے 
(Quran,Sura an-Nisā’:4,Ayat No:59)



وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا

  اور جو کوئی اللہ اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداءاور صالحین ہیں، اور یہ بہت اچھے ساتھی 
ہیں

(Quran,Sura An-Nisā:4,Ayat No:69)



 تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
 یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں ہیں، اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری کرے اسے وہ بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے، اور یہ بڑی کامیابی ہے 
(Quran,Sura An-Nisā:4,Ayat No:13) 

قرآن پاک کے روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتا ہے کے جو شخص کو اللہ کے محبوب حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہوگا وہی لوگ کامیاب ہیں اور انہی لوگوں پر خدا کی رحمت، خدا کی شفقت، خدا کا انعام اور خدا کی قربت نصیب ہوتا ہیں۔ اور جن لوگوں کے دلوں میں رسول اللہ کی محبت کا چراغ روشن ہیں وہی دل اللہ کی محبت کا حقدار ہیں اور وہی لوگ اہل سنت و الجماعت یعنی سنی ہیں۔
 اور جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شان مبارک میں گستاخی کرتے ہیں ان کوگوں کو اتنی سی بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ جسکا نام محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے تو بھلا انکا بے آدبی کب ممکن ہیں۔ اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام محمد رکھ کر یہ اعلان کردیا کہ جس کا نام محمد ہوگا اس کی کبھی بھی بے آدبی نہیں ہوسکتا ۔

اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ 


یہ ایک حقیقت ہے کہ لفظ محمد اتنا دلکش اور حسین ہے کہ اس کے سنتے ہی ہر نگاہ فرط تعظیم و ادب سے جھک جاتی ہے اور لبوں پردرود و سلام جاری ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت بہت سوں سے مخفی ہے کہ اس کا معنی و مفہوم بھی اس کے ظاہر کی طرح حسین و دلآویز ہے ۔ لفظ محمد حمد سے مشتق ہے جسکے معنی تعریف اور ثنا بیان کرنے کے ہیں۔ اور اسی حمد سے محمد ہے جس کے معنی ہے وہ ذات جس کی بار بار تعریف کی جاے۔ یعنی کہ جس کی تعریف حد سے بڑھ جاے۔
اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نام لیکر مخاتب نہیں فرمایا۔
قرآن پاک میں چار مقامات لفظ محمد کا ذکر آیا تو ہیں مگر اس طرح ۔
  
قرآن پاک میں لفظ محمد۔ 
 
قرآن پاک میں لفظ محمد چار بار آیا ہے۔
. 
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُول
 اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تو) رسول ہی ہیں
(Quran, Sura Āl -Imrān:3, Ayat No:144)

 مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّين
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں ہیں 
 (Quran, Sura Al-Ahzāb:33,Ayat No:40)

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَى مُحَمَّدٍ
  اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور اس (کتاب) پر ایمان لائے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی گئی ہے 
(Quran,Sura Muhammad:47,Ayat No:2)



 مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّہ 
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں 
(Quran,Sura  Al-Fath:48,Ayat No:29) 

یہ چار مقامات پر جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام مبارک کا ذکر فرمایا ۔اللہ تعالیٰ صرف اپنے بندہ کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ جس طرح حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ ، حضرت زکریا ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی اور رسول بن کر آے اسی طرح تو ہمارا محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تو نبی و رسول بن کر آیا ہے۔ پھر انکو ماننے سے کیوں انکار کرتے ہو۔ 
اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کے ساتھ مقام و مرتبہ کو بھی بیان کر کے یہ اعلان کر دیا کہ میرا محبوب سب سے اعلیٰ و بالیٰ ہیں ۔اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام محمد رکھ کر یہ بھی اعلان فرماں دیا کہ خبردار تم میں سے کوئ میرے محبوب کو آپنے جیسا نہ سمجھ لینا اور جو ایسا کرے گا وہی لوگ ظالم اور گمراہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام محمد رکھکر یہ اعلان فرماں دیا کہ میرا محبوب محمد سب سے جدا و اعلیٰ و بعلیٰ ہے۔ اسی شان مبارک کو قرآن یوں بیان کرتا ہے۔

      أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى
  کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر اس نے (آپ کو معزّز و مکرّم) ٹھکانا دیا۔
 (Sura ad-Duhā:93,Ayat no:6)

ایک سوال اور اسکا جواب۔

عام ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس آیت کریمہ سے تو یہ ثابت ہو رہا ہے کہ اللہ نے آپ کو یتیم نہ پایا جو حق اور صحیح ہے اور مفسرین نے بھی اس آیت کریمہ کا ترجمہ یہی کیا ہے جو حق اور صحیح ہے۔ تو اب سوال ہوا کہ آپ سب سے جدا اور اعلیٰ کیسے ہوے؟ 
تو اسکا جواب بھی اسی آیت کریمہ میں ہے۔ لفظ یتیم عربی الفاظ ہے ، کیوں کہ قرآن پاک عربی الفاظ میں نازل ہوا ہے نہ کہ اردو میں؟ اور عربی میں یتیم کے معنی ہے : بے نظیر، بے مشال، : تو اب اس آیت کریمہ کا معنی کچھ اس طرح ہوگا۔
 کیا اس نے آپ کو سب سے بے نظیر اور بے مشال نہ پایا تو پھر  اپنے لیے خاص کرلیا۔ 
اور جب اللہ نے اپنے لیے خاص کرلیا تو آپ کا اسم گرامی محمد پڑ گیا۔ جس کے معنی ہے : جس کی تعریف حد سے بڑھ جاے ، یعنی کے جس کی تعریف بار بار کی جاے: اللہ نے آپنے محبوب کا نام محمد اس لیے رکھا کے ساری مخلوقات تو میری حمد کرتی ہیں تو ہم محمود جس کی صرف تعریف کی جاے ،اور ہم جس کی تعریف کرے وہ محمد ہوے۔ کیوں کہ یہ دنیا فانی ہے ختم ہوجاے گا اور اسی کے ساتھ میرا حمد بھی ختم ہوجاے گا کوئ میرا تعریف کرنے والا نہ رہےگا لیکن اللہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہےگا اور جب اللہ حمد کرے اپنے محبوب کی تو وہ کب ختم ہو۔اسی لیےاللہ نے اپنے محبوب کا نام محمد رکھا۔ قرآن پاک اسی شان کو یوں بیان فرماتا ہے۔
  
   إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا 
بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  پر  درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو
(Quran,Sura Al-Ahzāb:33,Ayat No:56)


اس آیت مبارک کے روشنی میں یہ آمر صاف واضح ہوجاتا ہے کہ جس کی حمد تعریف اللہ تعالیٰ کرے تو اسکا ذکر کم ہو نہ گھٹے گا۔ پھر محبت کی انتہا یہ ہوئ کے اللہ نے آپ کا نام لیکر کبھی بھی نہیں بولایا پورا قرآن الحمد سے والناس تک پڑھ جایں اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یا محمد کہکر نہیں فرمایا اور یہی بات محمد کی انتہا ہے ۔ جب کے دوسرے نبی و رسول کو ان کے نام سے مخاتب فرمایا ۔ قرآن پاک یوں بیان کرتا ہے۔


 وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَىابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظً
   اور (اے حبیب! یاد کیجئے) جب ہم نے انبیاء سے اُن (کی تبلیغِ رسالت) کا عہد لیا اور (خصوصاً) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور موسیٰ سے اور عیسٰی ابن مریم (علیھم السلام) سے اور ہم نے اُن سے نہایت پختہ عہد لیا

(Quran,Sura al-Ahzāb:33,Ayat No:7) 

دوسرے جگہ ارشاد فرمایا 

 قَالَ يَا آدَمُ
    اللہ نے فرمایا: اے آدم


(Quran Sura al-Baqarah:2,Ayat No:33)

پھر ارشاد ہوا

 إِذْ قَالَ اللّهُ يَا عِيسَى
  جب اﷲ نے فرمایا: اے عیسٰی

(Quran, Sura Al ‘Imrān:3,Ayat No:55) 

 يَا مَرْيَمُ 
 اے مریم
(Quran, Sura Al ‘Imrān:3,Ayat No:)

 يَا زَكَرِيا 
 اے زکریا  
(Quran, Sura Al ‘Imrān:3,Ayat No:7)
  
    يَا يَحْيَى 
 اے یحیٰی
(Quran, Sura Al ‘Imrān:3,Ayat No:12)
  
اور جب محبوب کی بات ائ تو اپنا قانون بدل دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لقب سے یاد فرمایا جیسا کے قرآن ارشاد فرمایا۔
    
يَا أَيُّهَا النَّبِي
اے نبی
(Quran, Sura al-Ahzāb:33,Ayat No:1)



يَا أَيُّهَا الرَّسُول 
اے رسول
   (Quran,Sura Al-Maidah:5,Ayat No:41
  

 الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ 
   رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اُمّی (لقب) نبی ہیں  
(Quran,Sura Al-Arāf :7,Ayat No:157)


 رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ 
  تمام جہانوں کے لئے رحمت
(Quran,Sura Al-Ambiyā:21,Ayat No:107)



 يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّل
اے کملی کی جھرمٹ والے  
(Quran, Sura al-Muzzammil:73,Ayat No:1)


 يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِ 
 اے چادر اوڑھنے والے  
(Quran,Sura Al-Muddaththir:74,Ayat No:1) 


آپ نے دیکھا کہ اللہ نے آپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب بھی یاد فرمایا تو لقب سے یاد کیا۔
  
یہ ایک حقیقت ہے کہ آج لوگ اپنے نفس کی پروی کررہے ہیں۔ قرآن کی پروی نہیں۔ کیوں کہ جس بات کا حکم قرآن نے دیا ہے اسے چھوڑ دیے ہیں اور اپنے نفس کی تمنا کو پوری کرنے میں لگے ہوے ہیں۔
 کچھ بد دین جو یہ کہتے ہے کہ یا رسول اللہ کہنا گنہ و حرام ہے  وہ قرآن پاک کی اس آیت کو دیکھے؟ جس میں اللہ نے حکم دیا کے اگر میرے محبوب کو پکارنا ہے تو نام لیکر نہ پکارو بلکہ لقب سے پکارو اور یہ میری سنت ہے۔
یہ صرف کم علمی اور جہلت اور تنگ نظری ہے کہ جو یا رسول اللہ کہنا گہناہ اور حرام قرار دیتے ہے۔ ایسے الفاظ سے توبہ کرے اورنہ بولے ۔وہ خود بھی گمراہ ھو رھے ہے اور بھولے بھالے عوام کو بھی گمراہ کر رھے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہیں کہ کچھ بد دینوں کہ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ جس کی حمد خدا کرے تو کون ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت کو کم کر سکے مگر الا مثاء اللہ ایسے بددینوں کی کمی  نہیں ہیں کہ ہر وقت نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان مبارک کو کم کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔وہ خود تو جہنمی ہیں ہی اور عوام کو بھی جہنمی بنانے میں لگے ہوے ہیں۔

لہذا ایسے بد دینوں سے بچنا چاہیے  اور آپنے ایمان کی حفاظت کرتے رہنا چاہیے دعا ہے کہ اللہ ہمارے حال پر اپنے محبوب کے نعلین مبارک کے صدقہ میں کرم فرماے۔


                    
   
وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُن۔
 اور واضح طور پر پیغام پہنچا دینے کے سوا ہم پر کچھ لازم نہیں ہے۔
(Sura Yāsīn: Ayat no:17)


آمین